مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمة کی آفیشیل ویب سائٹ پر خوش آمدید
تعارف، نصب العین، اہداف
تعارف
علم انسان کی پہلی اور بنیادی انسانی ضرورت ہےکیونکہ انسان نےاپنا مقصد خلقت خود پا نا ہے اور اس ہدف کے حصول کے لیے روشنی کی ضرورت ہے ایسی روشنی جو انسان کے لیے انسانیت بھی واضح کرے ،مقصد خلقت بھی معین کرے ،خالق کی پہچان کروائے ،راستے اور رہنما کو بطور شفاف مشخص کرے ،ایسی روشنی جس سے انسان معاشرت کے قابل ہو جائے ،جہالت کی ظلمتوں سے نکل کرکائنات کی حقیقتوں اور رازوں سے آشناہو جائے ،کائنات میں چھپے تمام اسرار کشف کر لے زمین پر شرف و احترام سے زندگی گزار سکے اور زندگی کے اختتام پر آخرت کا توشہ بنا سکے ،ایسی روشنی جس کی ضیاء میں انسان فقط انسان ہی رہے ،درندہ نہ بنے ، وحشی نہ ہو، ستم گر و جبار نہ ہو ، ایسی روشنی جس میں بنیادی ضرورتوں سے محروم نہ ہو ،اپنے انسان ہونے یا موجود ہو نے پر شرمسار نہ ہو اس روشنی کا نام علم ہے جس کی طرف روایت میں بھی اشارہ ہوا ہے کہ الْعِلْمُ نُورٌ۔تخلیق انسان کے ساتھ ہی انسان کی تعلیم بھی شروع ہو گئی وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء كُلَّهَا اس روشنی کے اجالے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تواتر سے معلم بھیجے اور پھر حسن اختتام کے طور پر افضل المعلمین کو مبعوث فرمایا جس کے بارے میں ارشاد ہوا :
اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَۃَ
اور خود آپ ﷺ کا بھی یہ فرمانا تھا کہ
اِنّما بُعثتُ مُعَلماً
خاتم المعلمین نے اپنے پیروکاروں کے لیے بھی علم کا حصول فرض قرار دیا اور فرمایا :
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِم
نور علم امت کے اندر اور انسانیت کے اندر قائم رکھنے کے لیے اپنے اوصیاء و خلفاء کو منصوب فرمایا اور تعلیم و تربیتِ بشر، ان پر لازم قرار دی۔صاحبان علم کو امت میں ممتاز درجہ عطا کیا اور امور امت علماء کے حوالے کر دیے ۔تعلیم و تعلم تمام عبادات سے افضل قرار دیا تاکہ خورشید نور کسی نسل اور زمانے میں غروب نہ ہو ۔علم کا زوال انسانیت کا زوال ہے ، خود علم کا بجھنا انسانیت کے مٹنے کے برابر ہے ۔
تعلیم کو ہر فریضے پر مقدم قرار دیا کیونکہ علم ہی انسانیت کی معراج و سعادت کا ضامن ہے ۔مسلمانوں نے دین اسلام کے اس راز کو سمجھ کر اپنے آپ کو علم سے منور کیا اور تمام دنیا کی تابانی کا ذریعہ بنے ،جب تک علم کے میدان میں امامت کر تے رہے دنیا پر سروری کی اور جب علم کی رغبت سے محروم ہوئے غلامی وزوال کا سفر شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے ۔
قوموں کے عروج و زوال میں علم اور تعلیم نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ تعلیم کی مثال بہتے دریا کی مانند ہے جو وسیع و عریض میدانوں کے درمیان بہتا ہے اور اطراف کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے ،مٹی کے صحراوں کو لہلاتے کھیتوں اور پر ثمر باغات میں تبدیل کر دیتا ہے اور زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے خوراک پوشاک اور حیات کا ذریعہ بنتا ہے ۔ اگر دریاؤں پر بند باندھ دیے جائیں اور انکا رخ موڑ دیا جائے یا پھر کسی قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہو اور وہاں باران رحمت نہ برسے ، دریا خشک ہو جائیں تو تمام کھیت ،باغات ،چمنستان و گلستان خشک ہو جاتے ہیں اگر کسی قوم پر عذاب الہی شدید تر ہو تو انکی سرزمین پر رحمت علم کی باران رک جاتی ہے ۔ علم کے چشمے خشک،علم کے دریا اور نہریں خشک ہو جاتی ہیں ،کھیت صحرا بن جاتے ہیں ،باغات اجڑ جاتے ہیں ،اہل علم مفقود اور علماء کمیاب ہو جاتے ہیں ۔اسی لیے تعلیم میں ناکامی تمام ناکامیوں اور محرومیوں کی بنیاد ہے ۔
پاکستان کی سرزمین اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں سے مالامال ہے ۔پاکستانی دینی جذبے سے سرشار ہیں لیکن تعلیمی زوال پاکستان کا روگ بن گیا ہے ،تعلیمی پسماندگی عیاں ہے اور اسکے اثرات ہوَیدا ہیں۔جہالت او ر اس کے نتائج گلی گلی نظر آ رہے ہیں ،غلامی ،محتاجی ،فقر و فاقہ ،منافرت ،تعصب ، دشمنی ،فرقہ واریت،بد عنوانی، خواتین کا استحصال ،بچوں کے ساتھ درندگی ،سیاسی افراتفری اخلاقی گراوٹ اور بے رحمی وغیرہ جہالت کے کھلے ثبوت ہیں۔ اس سے پہلے کہ باغ مکمل ویران ہو جائے اور اس کے کھیت مکمل طور پر خشک ہو جائیں اور مزید افلاس بڑھے ،اقدار کا جنازہ اٹھ جائے ،انسانیت دفن ہو جائے اورہر طرف درندگی تاریکی اور ظلمت چھا جائے، اس المیے اور بحران کی طرف دھیان کی ضرورت ہے اور اس کے لیے مناسب اقدام کی ضرورت ہے تعلیم اور تعلیمی ادارے ملک میں کم نہیں ہیں لیکن صد افسوس کہ تعلیم کم اور مفاد پرستی کی دنیا میں تجارت کی منڈیاں زیادہ لگتے ہیں۔دینی ادارے کثرت سے ہیں لیکن دینی منافرت ،تعصبات اور تفرقے کا گڑھ بن گئے ہیں، ہر پاکستانی ملک سے فرار ہونا چاہتا ہے گویا اپنا ملک اور سر زمین زندان محسوس ہوتی ہے ، بنیادی تعلیم یا اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون کی طرف نگاہیں جاتی ہیں ۔ ملک سے بھاگ کر کسی اور سر زمین ،کسی دیگر قوم اور کسی اجنبی تہذہب کو اپنی بہشت اور نجات کی جنت سمجھتے ہیں۔
تعلیم کے باب میں سنجید گی کی ضرورت ہے ،مالی ،ذہنی ،انسانی اور افرادی سر مایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ملک کے اندر خال خال تعلیمی ادارے اس سنجیدگی کا پتہ دیتے ہیں ،محدود شخصیات اور سنجیدہ افراد نے محنت اور ہمت سے اہم قدم اٹھائے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو ثمر بخش بنائے لیکن اس کے لیے قومی ارادے اور عزم کی ضرورت ہے ۔
جامعہ عروۃ الوثقیٰ اسی طرح کی ایک کوشش کا نام ہے ، مذکورہ پس منظر ہی جامعہ کی تاسیس کا باعث بنا ہے چند متدین تجار اور بعض دلسوز علماء نے آپس میں ہم فکر ہو کر ہم قدم ہونے کی ٹھانی اور ملک میں ایک عظیم تعلیمی ادارے کی بنیاد ڈالی جس نے بہت ہی کم مدت میں چشم دید پیش رفت کی ہے ۔ جس دوران جامعہ کی تاسیس کا آغاز ہو،ا ملک مکمل طور پر فرقہ واریت، دہشت گردی اور مذہبی منا فرت کی لپیٹ میں تھا ۔قوم ، ملک میں جاری انارکی سے تھک چکی تھی، حکومت مسائل کو کنٹرول کرنے میں ناکام اور ریاست عاجز آچکی تھی، تمام مسائل کا نزلہ دینی تعلیمی اداروں پر گرایا گیا اور میڈیا سمیت ہر طبقے نے دینی تعلیمی اداروں کے خلاف نفرت آمیز ماحول بنا دیا ،تب سے دینی تعلیمی ادارے سرکاری اور عوامی ذرائع ابلاغ میں اپنا مقام کھو بیٹھے ۔ اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے اور کون اس کا ذمہ دار ہے؟ یہ سب کو معلوم ہے ۔
ایسی فضا میں جامعہ عروۃ الوثقیٰ کا قیام عمل میں آیا تاکہ ملک میں صحیح تعلیمی نظام متعارف کرایا جائے ،فرقہ واریت کا خاتمہ کیا جا ئے ،جہالت کے اندھیروں میں علم کا چراغ روشن کیا جائے، تعصبات کو ختم کر کے محبت کو فروغ دیا جائے، ویران ہوتے کھیتوں اور باغات کو بچانے کے لیے علم کا چشمہ بلکہ دریا بہایا جائے۔
دینی مدارس کی ایک نہایت درخشان تاریخ ہے موجودہ نسل کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمان امت میں تاریخ بھر میں جتنے مفاخر گزرے ہیںسب دینی مدارس کی پیداوار ہیں،فارابی،کندی،ابن سینا ،ابن رشد ،ابن خلدون،ذکریا رازی ،ابن ہیثم ،خواجہ طوسی و سیکڑوں دیگر ہستیاں انہی دینی تعلیمی اداروں کی خریج ہیں ۔زمانہ گزرنے کے ساتھ مسلمان حکمرانوں کی استبدادیت ،ہوس اقتدار اور دیگر عوامل کی وجہ سے دینی تعلیمی اداروں کی جامعیت ، گہرائی ،وسعت اور تحقیق حوادث کا شکار ہو گئی اور ان کے اندر مسلکی تعصب اور مذہبی منافرت باقی رہ گئی۔موجودہ مسلمان نسل کو علمی رجعت کی ضرورت ہے، یہ دوبارہ تعلیمی انقلاب کے ذریعے علمی و تحقیقی امامت کا سہرا اپنے سر باندھ سکتے ہیں۔
جامعہ عروۃ الوثقیٰ اس ہدف کو مدنظر رکھ کر منصۂ تعلیم میں ابھرا اور اللہ تعالیٰ کے لطف و عنایت سے دشواریوں،ناگواریوںاور مشکلات کے باوجود قلیل مدت میں قابل دید پیش رفت کر چکا ہے ،جامعہ سے ملحقہ مدارس میں روز افزون اضافہ ہو رہا ہے ناکام اور ویران دینی مدارس کو آباد کرنا عروۃ الوثقیٰ کا اعزاز ہے ،جامعہ کو اپنے بلند اور اعلیٰ دینی،تعلیمی،قومی ، ملکی اور عالمی سطح کے مدارج طے کرنے میں اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ ہے اور اس توکل کا نتیجہ آج تمام امت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے ۔ تازہ ترین پیش رفت کا ایک نمونہ جامعہ کو تعلیمی بورڈ کا درجہ ملنا ہے جو وفاقی وزارت تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت نے باقاعدہ دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ جامعہ ھذا کو بھی عطا کیا ہے ،ریاست کتنے عرصے سے مدارس کے بارے میں موجود تشویش ، بحران اور مشکلات کو حل کرنے میں حیرت کا شکار تھی، نہ مدارس کے پاس اسکا راہ حل تھا اور نہ ہی ریاست کے پاس کوئی کار آمد نسخہ تھا، سوچ بچار گفت و شنید اور نشست و برخاست کا ایک نہ ختم ہونے والا لاحاصل سلسلہ جاری تھا جس کی وجہ سے طرفین مذاکرات کو جو مشکلات پیش آرہی تھیں ان سے کہیںزیادہ مدارس مشکلات کے شکار تھے ،مدارس سے دنیا کو ہراساں کیا گیا اور نامناسب تعارف دنیا کو کرایا گیا ۔
بالآخر موجودہ حکومت اور وفاقی وزیر تعلیم نےمناسب راہ حل نکال کر مدارس کی مشکلات کو کم کرنے یا ختم کرنے کا ارادہ کیا ہے ،ریاستی اداروں کے تعاون سے مدارس کو صنعتوں کے ایکٹ کے بجائے وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک کرنے کا فیصلہ ہوا جس میں مدارس کی آزادی ٔعمل،آزدیٔ نصاب اورآزادانہ مالیات کو محفوظ رکھا گیا ہے ،مدارس اور ریاست کے درمیان ایک دوسرے کے اداروں کے متعلق کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ریاستی اداروں کا یہ خدشہ ہے کہ مدارس کے لیے بنائے گئے روایتی وفاق انہیں سیاسی جماعتوں اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور روایتی وفاق کا یہ خیال ہے کہ ریاست ان کی آزادی سلب کرنا چاہتی ہے بہر کیف مدارس چونکہ تعلیمی ادارے ہیں اس ناطے سے وزارتِ تعلیم سے ہی ان کا رشتہ بنتا ہے اپنی آزادی محفوظ رکھتے ہوئے وزارتِ تعلیم کے ساتھ منسلک رہ کر قانونی حیثیت حاصل کرلینے میں مدارس کی بہتری ہےالبتہ اس شرط پر کہ مدارس یا ان کے متولیان کے کچھ اور مقاصد نہ ہوں
جامعہ عروۃ الوثقیٰ اپنی تاسیس کے دس سال مکمل ہونے پر بورڈکا درجہ پانے کو اپنے لیے مدارس اور قوم کے لیے ایک اہم پیش رفت شمار کرتا ہے اور اسے دینی تعلیمی نظام کو ارتقاء بخشنے ،نظام تعلیم کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور تعلیمی اداروں پر حکومتی اور عوامی اعتماد کا غنیمت موقع شمار کرتا ہے۔
وفاقی وزارتِ تعلیم کی جانب سے مجمع المدارس تعلیم الکتاب و الحکمۃ کی باقاعدہ منظوری دی گئی ہے جو ایک پر وقار تقریب کے اندر اسلام آباد میں وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود صاحب کی موجودگی میں دیگر چار وفاق کے ساتھ مجمع کو منظور ی کی سند عطا کی گئی ہے ۔
جامعہ عرو ۃالوثقیٰ نے اللہ کی مدد سے اور مومنین کے تعاون سے قلیل مدت میں حیران کن پیش رفت کی ہے۔ امید ہے مجمع المدارس کے عنوان سے بھی ملک میں موجود دینی مدارس اور دینی تعلیمی نظام میں نمایاں کارکردگی دکھائے گا ۔مجمع المدارس کا مقصد اور اس کے علمی نظام کو ارتقاء دینا، جدید تقاضوں کے مطابق نصاب تعلیم تدوین کرنا ،معیار ی امتحانی نظام وضع کرنا ،قابل ِ قبول تعلیمی اسناد صادر کرنا ،دینی تعلیمی نظام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنا ،دنیا میں مدارس کا وقار بحال کرنا ، اتحادبین المسلمین کو نصاب کا حصہ بنانا ،مختلف مسالک کے علماء سے علمی و تدریسی استفادہ کرنا ،مدارس میں تحقیقات کو رواج دینا، علمی تبادلہ کے لیے ماحول فراہم کرنا ،مدارس کے لیے قابل اساتید تیار کرنا، طلاب دینی کو تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے بہرہ مند کرنا ،دینی طلاب میں پیشہ وارانہ فنی تعلیم کو فروغ دینا ،تمام قومی اور علمی میادین میں ضرورتوں کو پورا کرنا ،پاکستان کے اندر رہ کر ملکی ترقی و استحکام کے لیے طلاب کی تربیت کرنا ،اعلی اخلاقی اقدار کو فروغ دینا ،عوام کا اعتماد مدارس پر بحال کرنا ،مدارس کے ساتھ عوامی تعاون کو بڑھانے کے لیے ارشاد کرنا ، مدارس کی راہ میں حائل ہر طرح کی مشکلات کے حل کے لیے کوشش کرنا، عصری تعلیمی اداروں کے ساتھ علمی و تحقیقاتی تعاون بڑھانا ،جید علماء ،سکالرز اور دانشور شخصیات کے ذریعے رہنمائی لینا ،نصابی کتب مہیا کرنا اور مدارس کی ضرورت کے مطابق فراہم کرنا ،اساتید کی تعلیمی صلاحیت بڑھانے کے لیے ورکشاپ کرنا ،مدارس کو جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کے قابل بنانا ،طلاب کو دنیا میں رائج زبانوں سے آشنا کرنا ،وحدت کو فروغ دینے کے لیے علمی مواد نشر کرنا ۔دنیا کے معروف تعلیمی مراکز سے علمی تبادلات کرنا ،ہم مجمع المدارس کو پاکستان کی علمی ارتقاء کا زینہ سمجھتے ہیں اور تمام خواتین و حضرات سے بلاتفریق مذہب و مسلک تقاضا کرتے ہیں ،مجمع المدارس کے ذریعے تعلیمی نظام کی اصلاح و بہبود اور پیش رفت کے لیے تجاویز دیں اپنی خدمات پیش کریں اور ہر قسم کا تعاون کریں تاکہ اس غنیمت فرصت سے استفادہ کرکے ملک و قوم اور دین کی خدمت کرسکیں ۔
جامعہ عروۃ الوثقیٰ قومی سرمایہ ہے کسی فرد، خاندان ،جماعت ،برادری اور طبقہ کی ملکیت نہیں ہے، اسی طرح مجمع بھی اجارہ داری کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ تعلیم و دین کے میدان میںخدمت کا وسیلہ ہے اور قومی ادارہ ہے ہر باصلاحیت ،صالح اور قابل انسان کی مجمع المدارس کو ضرورت ہے ،جن حکومتی اور عہدہ داروں نے جامعہ پر اعتماد کرتے ہوئے مجمع المدارس کی اضافی ذمہ داری کا موقع فراہم کیا ہے، ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ذات علیم ہمیں اس ذمہ داری کو احسن طریقہ سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے اور جامعہ کو اس اعتماد پر پورا اترنے کی توفیق دے، مجمع المدارس کے ساتھ تعاون کے لئے ملک کے تمام اکابرین ،علماء ، مدرسین، محققین اور صاحبان رای ونظر سے درخواست کرتے ہیں کہ مشاورتی ، تجرباتی ،عملی اور علمی تعاون کے ذریعے دینی مدارس کی بنیادوں کو مستحکم بنانے اور مشکلات کے حل کے لئے اپنا دینی فریضہ انجام دیں۔ ہم آپ کےتعاون کے شکر گذار ہیں۔
ان شا ء اللہ جلد ہی مدارس کی بہبود ،ترقی ،تکمیل اور رشد و نموکاجامع منصوبہ تدوین کرکے مدارس کے سامنے پیش کریں گے اور مختلف تعلیمی مراکز سے فارغ التحصیل شخصیات ،فضلاء اور اساتید کی مختلف مدارس کے لئے خدمات انجام دینے کے لیے بھی جلد ہی مدوّن طریقہ کا ر پیش کریں گے۔
ہم پہلے سے نا کام اور ویران تعلیمی مدارس کی آباد کاری کا عزم رکھتے ہیں اور متعدد مدارس ملک بھر میں تعمیر کرکے آبا د کرچکے ہیں اور کچھ مراکز جلد ہی تعمیراتی مراحل مکمل کرکے باقاعدہ تعلیمی دھارے میں شامل ہوجائیں گے، اس توفیق پر ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر گذار ہیں آپ مومنین کے سامنے یہ عہد کرتے ہیں کہ ملک بھر میں جہاں بھی قومی و دینی سرمایہ ضائع ہورہا ہے یا اس کے تعلیمی عمل میں مشکلات ہیں، ہم اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے واقفین مدارس او ر متولیان مدارس کی نیتوں کو تکمیل تک پہنچانا اپنا اعزاز سمجھتے ہیں۔
یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ مجمع المدارس تعلیم الکتاب و الحکمۃ کسی ایک مسلک کا نمائندہ بورڈ نہیں ہے بلکہ تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے طلاب ، علماء ،اساتید اور مدارس اس کا حصہ بن سکتے ہیں اسکے اندر اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں اور مجمع المدارس کی سہولتوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔