جامعہ عروۃ الوثقیٰ پاکستان کے معتبر اور مؤثر تعلیمی اداروں میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے ، سنہ ۲۰۱۰ میں اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے لطف و فضل سے تیزی کے ساتھ تعلیمی فاصلے طے کرتا ہوا آج الحمدللہ پاکستان میں چشم دید خدمات پیش کررہا ہے۔ جامعہ کی تاسیس کا محرک ملک کے اندر غیر تسلی بخش نظام تعلیم کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات بنیں۔ ہر محب وطن شہری ملک میں جاری انتشار، منافرت، فرقہ واریت، تعصبات سے پریشان تھا، باصلاحیت اور ذہین افراد کا دیگر ممالک کی طرف پناہ کی تلاش میں چلے جانا ہر سنجیدہ انسان کے لئے تکلیف دہ امر تھا۔
اللہ کےفضل و کرم سے پاکستان کا شماردنیا کے ممتاز ممالک میں ہوتا ہے اسی طرح پاکستانی قوم بھی دنیا کی باصلاحیت اقوام میں شمار ہوتی ہے لیکن پاکستان بننے کے بعد ملک و قوم مختلف مشکلات اور مسائل کا شکار رہے ہیں اپنے تئیں کئی افراد، طبقات اور اداروں نے اس کے حل کے لیے کوشش کی ہے لیکن مشکلات کماکان موجود بلکہ پہلے سے بڑھ کر ہیں۔
ملکی و قومی مشکلات کا راہ حل تعلیم کے اندر پوشیدہ ہے معاشرت و معاش ، دین و مذہب ، تہذیب و ثقافت، صنعت و زراعت میں ترقی وپیش رفت اور اقوام و ممالک کی ترقی و ویرانی کا دارومدار تعلیمی دھارے پر ہے۔تعلیم کی مثال دریا کی ہے اور باقی تمام شعبہ ہائے زندگی کی مثال کھیت و باغات کی سی ہے ۔ اگر دریا میں پانی بکثرت موجود ہو تو کھیت و باغات سرسبز ہونگے اور شادابی ہوگی اور اگر دریا خشک ہوجائیں یا اس کا رخ موڑ دیا جائے تو تمام کھیت و باغات خشک و بنجر ہوجائیں گے۔ اگر تعلیمی نظام کمزور ہو یا آفات کا شکار ہو تو اس کی بنیاد پر بننے والی ہر چیز مخدوش ہوجائے گی۔لہٰذا بعض سنجیدہ ، درد مند خیّر مومنین اور بابصیرت و دلسوز علماء کرام نے ملک کے اندر ایسے تعلیمی نظام اور ادارے کا وجود ضروری سمجھا جو مذکورہ اہداف کے حصول کے لیے تمام شرائط اور خصوصیات کا حامل ہو جو جاری تعلیمی سلسلے کے اندر پائے جانے والے نقائص اور عیوب سے پاک ہو چنانچہ چند سال کی مشاورت کے بعد لاہور میں ایک مثالی تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا بعض صاحبان توفیق مومنین نے اس کے مالی فرائض کا ذمہ اپنے کندھوں پر لیا اور اسے احسن طریقے سے نبھایا اور ایسے ہی علمائے کرام کی ایک ہم فکر جماعت نے اس کے تعلیمی ، انتظامی اور تدریسی ذ مہ داری کا بیڑا اٹھایا اور اسے انجام دے رہے ہیں۔
جامعہ میں قومی ،ملی و عصری تقاضوں کو مدنظر رکھ کر جدید بنیادوں پر استوار نصاب ترتیب دیا گیا ہے اس نصاب میں علوم انسانی یا سوشل سائنسز کو شامل کیا گیا ہےجن میں22 مضامین شامل ہیں:
وسعت نظام، کثرت طلاب، مثالی نظم و انضباط، جدّتِ اسلوب، جامعیتِ نظام تعلیم، ملحقہ مراکز میں روزافزون اضافہ جیسی خصوصیات کے حامل ہونے کی بنا پر جامعہ اور ملحقہ مراکز تعلیم کے لیے مستقل تعلیمی بورڈ یا وفاق المدارس کی ضرورت محسوس کی گئی ہے اور الگ امتحانی بورڈ بنام ’’مجمع المدارس تعلیم الکتاب و الحکمۃ ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تاکہ مملکت عزیز پاکستان کی علمی، دینی، تحقیقی، نظریاتی وتربیتی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے۔
مجمع المدارس تعلیم الکتاب و الحکمۃ نے پاکستان بھر میں تمام ملحقہ مدارس و تعلیمی مراکز کا تعلیمی نظام، اتحاد بین المسلمین ،مسلکی ہم آہنگی، ملکی سلامتی اور قومی تشخص کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیاہے۔ اس نظامِ تعلیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بلاتفریق مسالک جید علماء، فاضل دانشور اور اسکالرز اور ماہرین تعلیم سے استفادہ کیاجائےگا۔تعلیمی نظام مکمل طور پر جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر استوار کرنے کا پختہ عزم ہے۔اس نظامِ تعلیم سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات اسلامی و عصری علوم سے یکساں طور پر بہرہ مند ہوں گے اوردنیا میں رائج جدید ترین تعلیمی وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔
مجمع المدارس تعلیم الکتاب و الحکمۃ پاکستان میں اپنے تحتِ نظارت مدارس، مراکز اور طلاب کو موجودہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق فیضیاب کرنے کےلیے تمام ممکنہ اقدام کرے گا۔مجمع المدارس دنیا میں پاکستان کے تعلیمی مقام کو عالمی سطح پر لانے کا اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔ عالمی معیاروں کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیمی نصاب امتحانی نظام، تدریس کا اسلوب اور تحقیقاتی ضوابط ترتیب دیئے گئے ہیں نیز تعلیم کے ساتھ ساتھ طلاب میں فنی مہارتیں پیداکرنے کےلیے فنی تعلیم کا مناسب نظام بھی بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ مجمع المدارس نے ملک سے باہر مقیم پاکستانی کمیونٹی کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے آن لائن یا فاصلاتی تعلیمی نظام باقاعدہ طور پر لاگو کر رکھا ہے ضرورت پڑنے پر بیرون ملک مجمع المدارس سے ملحقہ تعلیمی مراکزقائم کیے جاسکتے ہیں۔ مجمع المدارس سے مربوط و ملحق تمام مراکز ومدارس اسلامی تعلیم اور عصری تعلیم کو ایک ساتھ دینے کے پابند ہونگے۔